محمد سلیم فانی

محمد سلیم فانی

نعت رسول مقبول ﷺ

اے منبع  جودوسخا     رحمت ا لعالمین

روضہ  اقدس ہے تیرا رحمتوں کی سرزمیں

اپنی کملی میں چھپا کر مجھ کو جنت لے چلیں

اے میرے خیرالامیں، خیرالامیں خیرالامیں

آتی جاتی سانس میں شامل رہا تیرا نام ہی

تو کبھی آیا نہ لیکن  سامنے پردہ نشیں

تیری چوکھٹ کیا ملی اک خزانہ مل گیا

میرا مقدر دلربا میری قسمت دلنشیں

مدحوش ہوں فانی مگر حوش اتنا ہے ضرور

تیرے جلوے ہر سمت  تیری رونق  ہر کہیں

محمد سلیم فانی

سیاسی پیار

جو میرے دل کا باسی ہے

اس کا پیار سیاسی ہے

جتنے لوٹے چمچے ہیں

سب کی ایک ہی ماسی ہے

نظروں سے وہ غائب ہے

پھر سے آج اداسی ہے

بادل امن کا برسے گا

 دھرنی ماتا پیاسی ہے

رشوت کی اقلیدس میں

سب کا زاویہ راسی ہے

فانی  پیار کی منزل میں

رنج وغم  اداسی ہے

محمد سلیم فانی

غزل

درد کا خوگر ہوں میں احساس  کا پیکر ہوں میں

یوں حقارت سے نہ دیکھیں آپ سے بہتر ہوں میں 

اس قدر محرمیاں میرا مقدر بن گیئں

زندگی کی جنگ میں ہارا ہوا لشکر میں

ایک مرکز پر رہیں تو دل جدا ہوتے نہیں

مورتی چاہت کی ہے تو پیار کا مندر ہوں میں

کعبہِ دل میں ہوں مثل ہجرِ اسود بلیقیں

مجھ کو بے مایا نہ سمجھو قیمتی پتھر ہوں میں

میرے رخساروں پہ پھیلا ہے تمنا ئوں   کا خوں

کرب میں ڈوبی ہوئی اک شام کا منظر ہوں میں

ہیں میرے اشعار فانی مظہرِ  اوجِ خیال

دورِ نو میں شاعرانہ سوچ کا شہپر ہوں میں

محمد سیلم فانی

گرانی کے دباؤ سے جھکی ہے یوں کمر اپنی
تمنا مختصر کر دی ہے میں نے اپنے جینے کی
یہ کیسا انقلاب آیا کہ نہ تم میرے نہ میں اپنا
کہ تنخواہ خانہ جنگی بن کے آتی ہے مہینے کی
محمد سلیم فانی

رسم دنیا کے مطابق میں نے بھی اپنی بہو کو
دئیے تھے پانچ سو روپے منہ کھلوائی میں
منہ کھل گیا ہے اس کا اب بند کیسے ہو گا
اب ساری عمر بیتے گی منہ بند کرائی میں
محمد سلیم فانی

  چڑھ گیا بیگم کے سر میکے میں سپلائی کا بھوت

اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا شناسائی کا بھوت
اس کو روزوشب تحائف کی خریداری کا فکر
اور اپنے سر چڑھا بیٹھا ہے مہنگائی کا بھوت

 

محمد سلیم فانی

جو درخواست بھیجو تو کچھ ساتھ بھیجو
وگرنہ اسے سمجھو کاغذ کی ناؤ
یہ گرداب دفتر میں اٹکے گی ایسے
کہ تم ڈوبتے ڈوبتے ڈوب جاؤ

محمد سلیم فانی

 

میری بیوی کو بھی ہیں اقبال کے اشعاریاد
گو اسے بھاتے نہیں اک آنکھ بھی شعروسخن
شعر گوئی پہ میری بلبلا کے کہتی ہے مجھے
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

محمد سلیم فانی

دوستی کے بندھن تو استوار رکھ
دینے تو پانچ سو تھے تو صرف چار رکھ
کمیٹی مجھے ملے گئی یکم کو جانے من
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

محمد سلیم فانی

اک وکیل کیہ رہا تھا اپنے موکل سے
ْقانون توڑ سکتا ہوں دولت کے ہتھوڑے سے
سچ کو جھوٹ،جھوٹ کو سچ بنا سکتا ہوں میں
لیکن آپ دے رہے ہیں پیسے مجھ کو تھوڑے سے

سلیم فانی

ہم پولیس والوں کا تنخواہ میں کہاں گزارہ ہے

آپ خوشی سے ڈاکہ ڈالیں باقی کام ہمارا ہے

 

محمد سلیم فانی

خرد کی آگ نے دنیا میری جلادی ہے۔

سمندروں نے مجھے پیاس کی سزا دی ہے

وہ جس کے سائے میں آ بیٹھتے تھے دیوانے

سنا ہے اس نے وہ دیوار ہی گرا دی ہے

مجال ہو تو میں پوچھوں جہاں کے مالک سے

میرے نصیب کی پرچی کسے تھما دی ہے

محمد سلیم فانی

 

بے وفائوں پہ جان دیتے تھےکتنی ناداں میری جوانی تھی  

آج پیری میں دل سے کہتے ہیں بات بوڑھوں کی کیوں نہ مانی تھی

سلیم فانی

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *