منتخب اشعار

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا 

ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا 

شکیب جلالی

 

 

آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے 

تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر

شکیب جلالی 

 

تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں 

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ 

شکیب جلالی

 

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح 

دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں

شکیب جلالی 

 

 

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے 

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے 

شکیب جلالی

 

 

جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے 

زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے 

شکیب جلالی

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *