ہمارا بچپن ، پیارا بچپن

ہمارا بچپن ، پیارا بچپن

بچپن کا زمانہ وہ سنہری دور ہے جس میں فکر نام کی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ شعوری ادراک کے ساتھ ہی انسان میں بچپن کی طرف لوٹ جانے کی خواہش کبھی کبھی بیدار ہوتی ہے اور ایک خیال یہ بھی ہے کہ بچپن والا بچہ ہمیشہ ہر انسان کے ساتھ رہتا ہے۔

ہم بچپن میں اپنی پھپھو کے ہاں دیہات میں گرمی کی چھٹیاں گزارنے جاتے تھے۔ وہ دن آج بھی     یادگار ہیں جن میں ہم خالص غذا کے ساتھ، خالص جذبوں اور رشتوں سے روشناس ہوئے۔    

 

چالیس سال پہلے دیہاتوں میں فون نہیں تھے جس کی وجہ سے ہم بغیر اطلاع دیئے رختِ سفر باندھدتے، جہاں بس رُکتی وہاں سے پیدل گاؤں تک کا سفر کرتے، راستے میں جو گھر آتے سبھی پوچھتے کہ کس کی طرف جا رہے ہیں؟ جب انہیں بتایا جاتا تو ہر کوئی ہمارے رشتہ داروں سے اپنا تعلق ظاہر کرتا اور اپنی حیثیت کے مطابق ہماری آؤ بھگت کرتا۔ وہ لوگ جو ہمارے لئے اجنبی تھے اُن کے حسنِ اخلاق سے یوں لگتا جیسے ہمارے رشتہ دارں کے ساتھ ان کے گہرے مراسم ہیں۔    

 

صبح سویرے ہمیں اٹھا کر قرآن پڑھنے کےلئے مسجد میں قاری صاحب کے پاس بھیجا جاتا۔ قرآن  پڑھ کر جب ہم گھر پہنچتے تو حویلی مکھن کے پراٹھوں کی بھینی بھینی خوشبو سے مہک رہی       ہوتی اور ہم سب ناشتے پر یک لخت جھپٹ پڑتے۔ پراٹھوں کے ساتھ مکھن، لسی اور اچار کا جواب نہ ہوتا۔ دوپہر سے پہلے ہم ’چارو گزی‘ ، ’بارہ گاٹ‘ کھیلتے اور سہ پہر میں ’ شٹاپو‘ اور ’پٹھو گرم‘ سے خون گرماتے۔

 

دوپہر کے کھانے میں کبھی ’مسی‘ روٹیاں، مکھن میں روسٹ کی ہوئی سبز مرچوں اور لسی کے ساتھ مزہ دوبالا کرتیں تو کبھی سالن کے ساتھ لسی اور تندوری روٹیاں ہوتیں۔ دن بھر ہم اکثر کھیل کود میں مصروف رہتے اور وقفے وقفے سے مزید بھوک لگنے پر تربوز اور خربوزوں سے تازہ دم ہو جاتے۔ کبھی کبھار ہم کٹائی یا بجائی کے موقع پر چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بھی بٹاتے۔ رات کے کھانے کے بعد اُپلوں کی ہلکی آنچ پر کڑھنے والے دودھ کا ایک ایک گلاس ملتا جس کا ذائقہ آج تک نہیں بھولا اور ویسا ذائقہ پھر کبھی میسربھی نہیں ہوا۔                                                          

 

شام کے بعد بڑے اور بزرگ چوپال میں بیٹھ جاتے وہاں کبھی تحت اللفظ اور کبھی سُر کے ساتھ ہیر اور سیف الملوک کے قصے سنائے جاتے۔ بچے ’لُکن میٹی‘، ’باڈی‘ اور ’باندر کلہ‘ جیسے کھیلوں میں مصروف ہو جاتے اگرچہ ’باندر کلہ‘  کھیلنے پر کبھی کبھی ہمیں ڈانٹ بھی پڑتی اور ایسا تب ہوتا جب کھیلتے ہوئے کسی کو چوٹ لگ جاتی۔ ایک بھرپور دن کے بعد ہم سو جاتے اور اگلے دن دوبارہ اُسی روٹین سے دن تمام ہوتا۔

 

واپسی پر ہمارے لئے ٹانگہ منگوایا جاتا اور رخصت کے وقت بہت سے لوگ الوداع کہنے کےلئے اکٹھے ہو جاتے۔ قیام کے دوران اور رخصت کے وقت یوں لگتا جیسے ہم پورے گاؤں کے مہمان تھے۔

 

دیہات کی زندگی میں انسانی رویے سیکھنے کا ایک مربوط اور خود کار نظام کار فرما تھا جس کے توسط سے نئی نسل میں بھی یہ خوبیاں در آتی تھیں۔ کم و بیش ہر سال ہمارے لئے یہ وزٹ تفریحی و مطالعاتی دورے کے مترادف تھا جس میں ہمیں بہت سے مثبت رویے سیکھنے کا موقع ملتا۔

آج دیہات کے مناظر دیکھ کر دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ وہ دیہات جو کبھی مقدس اور پاکیزہ جذبوں کا امین تھا۔ جہاں کبھی کشادہ گلیوں اور حویلیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دل بھی اُتنے ہی بڑے تھے۔ جہاں خوشی و غم کی سانجھ تھی۔ جہاں لوگ خوبصورت رویوں کے حامل تھے وہاں بھی اب لحاظ، مروت، احساس اور اخلاص جیسے جذبے کافور ہوتے جا رہے ہیں۔

 

دلوں میں دراڑیں پڑنے سے حویلیوں میں بھی دیواریں اُٹھ گئیں ہیں۔ خوشی و غم کی سانجھ کو آپا دھاپی نے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ جن معاشروں کی بنیاد احساس و اخلاص پر تھی اُنہیں آج کی برق رفتار زندگی نے اپنے ہی پاؤں تلے روند ڈالا ہے اور احساس و اخلاص کی کمی نے افلاس میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ 

 

دیہات کی صورتِ حسرتِ دلگیر دیکھ کر باقی صدیقی صاحب کی نظم ” ایہ نہیں مینڈا گراں ”  یاد آتی ہے۔

 

ایہ نہیں مینڈا گراں

 

نہ اوہ پینگھاں نہ اوہ جھوٹے

نہ اوہ گھُمرے گھُمرے بوٹے

نہ اوہ گوڑھی چھاں

ایہ نہیں مینڈا گراں

 

پچھلیاں گلاں کی دل سہکے

کیویں وچ ترنجن بہ کے

ڈھولا ماہیا گاں

ایہ نہیں مینڈا گراں

 

کھیڈاں سب وچالے پئیاں

نہ اوہ سجن، نہ اوہ سئیاں

ایویں پھیرے پاں

ایہ نہیں مینڈا گراں

 

کس اگے فریاد کراں میں

گھلی بہ کے یاد کراں میں

اوکھے اوکھے ناں

ایہ نہیں مینڈا گراں

 

آج کے دور میں نہ ادارے معاشرتی رویے سکھا پا رہے ہیں اور نہ ہی ہماری معاشرت کی وہ صورت رہی ہے جس میں نئی نسل کےلئے معاشرتی رویے سیکھنے کا خود کار نظام موجود ہو۔ نام نہاد تعلیم کی روشنی آنکھوں کو بینا کرنے کی بجائے نظروں کو خیرہ کرتی دکھائی دیتی ہے اور موجودہ تعلیم کے سیلِ فنا میں ہر کوئی تسکینِ قلب کی بجائے کنفیوژن کا شکار نظر آتا ہے۔

 

8 thoughts on “

ہمارا بچپن ، پیارا بچپن

  1. sir naeem sabri ny bachpan ky din yaad dila diye hain
    bri khobsorat tehreer hai jis main ilmi wa adbi rung jhalk raha hai
    yeh silsla jari rehna chahiye

Leave a Reply to Naeem Sabri Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *