ہمزاد سے مکالمہ(۴) طرز عمل

مسجد کے قریب کچھ مکان ایک ہی لائین اور ڈیزائن میں بنائے گئے تھےجو مسجد کی ملکیت تھے۔ ان میں سے ایک گھر میں ہم بطور کرایہ دار رہتے تھے۔یہ گھر جس جگہ واقع تھا وہاں سے ہمارے کچھ عزیز و اقارب بھی قریب ہی رہتے تھے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عزیز و رشتہ دار چھوٹی موٹی استعمال کی چیزیں آپس میں ہی مستعار لے لیا کرتے ۔ 

ایک مرتبہ میری خالہ زاد بہن ہمارے گھر چھلنی لینے آئی لیکن میں نے نہ جانے کیوں کہہ دیا کہ ہم نے انہیں چھلنی نہیں دینی۔ یہ وہ عمر تھی جس میں بچے کبھی کبھار گھر میں کپڑے تبدیل کرتے وقت  یا نہانے سے پہلے ،کپڑوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ یاد رہے یہ واقعہ تقریبا نصف صدی پہلے کا ہے۔ میری والدہ نے مجھے باتوں میں لگایا اور چھلنی ایک طرف چارپائی پر رکھتے ہوئے میری خالہ زاد کو اشارہ  کیا کہ وہ چھلنی لے جائے۔ میری نظر بھی چھلنی ہی  پر تھی۔ جیسے ہی اس نے چھلنی پکڑ کر دوڑ لگا ئی میں بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔ پھر کیا تھا؟ بس اک تماشا ہوا۔ سبھی لوگ ہمیں دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میری خالہ زاد بھاگتے ہوئے ایک حجام کے پیچھے چھپ گئی جو بر لب سڑک چارپائی ڈالے بیٹھا تھا اور کہنے لگی “چاچا! دیکھو یہ مجھے مارتا ہے۔”

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

حجام جو ہمارا محلے دار ہی تھا۔ اس نے مجھے پکڑ لیا۔ مصنوعی ڈانٹ ڈپٹ بھی کی اور میری خالہ زاد سے کہا کہ وہ دوڑ کر گھر چلی جائے۔  میں بھی اپنا سا منہ لے کر گھر واپس چلا آیا۔ محمد بخش مرحوم و مغفور میری اسی خالہ زاد بہن کے والد محترم ،میرے بڑے خالو تھے۔ آپ متناسب قد، سفید رنگ،با ریش  چہرے اور تبسم زیر لب جیسے اوصاف کے حامل شخص تھے۔ ان سے میرا     آمنا سامنا  اکثرہوتا رہتا تھا جس کی کئی ایک وجوہات تھیں۔

پہلی وجہ یہ  تھی کہ ہم  ان کے ایک مکان میں کافی عرصہ بطور کرایہ دار رہے۔ جس مسجد والے مکان کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ وہاں سے وہ ضد کر کے ہمیں لائے تھے۔ یہ نیا مکان پہلے مکان کی نسبت بہت وسیع تھا۔ یہ کئی کنالوں پر محیط  ایک بڑا مکان تھا جس میں امرودوں کا باغ بھی  لگا تھا۔  دوسری وجہ یہ کہ جب انہیں مکان کی اپنے لیے ضرورت پڑی  تو ہمیں مکان تبدیل کرنا پڑا۔ اور اتفاق سے نیا مکان بھی ہمیں ان کی ہمسائیگی میں ہی مل گیا۔ تیسری یہ کہ ہمارے خاندان میں سب سے پہلے بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن بھی انہوں نے ہی خریدا۔ ٹیلی ویژن دیکھنے کےلئےبھی آنا جانا لگا رہتا۔ چونکہ ہاکی میچ دیکھنے کے وہ خود بھی بہت شوقین تھے اس لئے میچز کے دوران بھی ملاقات رہتی۔اور چوتھی یہ کہ ان کی رہائش کے باہر چند دکانیں تھیں جو انہوں نے کرائے پر اٹھا رکھی تھیں۔ ہم بچے اور لڑکے ان دکانوں کی وجہ سے اکثر وہاں جمع رہتے۔ اور جب بھی خالو نمازکے لئے گھر سے نکلتےتو ملاقات کی صورت بن جاتی۔

میں ایک مرتبہ گرمیوں میں، کزنز اور خالو کے ساتھ رات کے پچھلےپہرمیچ دیکھنے ان کے گھر آیا۔ چارپائیاں صحن میں بچھی تھیں۔ خالو نے چارپائی کے ساتھ ایک میز پر ٹائم پیس رکھا تھا۔ اتفاق سے میں اس میز کے قریب  ہی کرسی لگا کر بیٹھ گیا۔ جب پاکستان نے پہلا گول سکور کیا تو میں نے بے اختیار نعرہ لگایا۔ لیکن اگلے ہی لمحے میز کہیں پڑا تھا اور ٹائم پیس کہیں۔ اس کے باوجود خالو نے ڈانٹ  ڈپٹ کے بجائے قدرے تحمل سے میچ دیکھنے کی نصیحت کی۔

میرے خالودائیں ہاتھ پر گھڑی باندھتے تھےجس کا    سٹریپ اکثر سیاہ رنگ کا ہوتا تھا۔ لیکن انکی روز مرہ کی مصروفیات نمازوں کے اوقات کے مطابق تھیں۔ ہم جب کبھی نماز کے وقت دکانوں کے سامنے کھیلتے یا ہنسی مذاق کرتے پائے جاتے تو وہ ہمیں کبھی نرمی سے اور کبھی سخت لہجے میں نماز کی دعوت دیتے ہوئے مسجد چلے جاتے۔ ہم کبھی کبھی تو ان کے ساتھ ہو لیتے اور کبھی پیچھے آنے کا ڈرامہ کرتے ہوئےآدھے رستے سے غائب ہوجاتے۔ لیکن انہوں نے اس حرکت پہ کبھی بھی برا نہ منایا۔

عیدین کے موقع پر ان کی عادت تھی کہ عید گاہ میں نماز پڑھنے جاتے۔ ایک دن پہلے اطلاع دے دیتے کہ عید کی نماز کے لئے گھر سے کب روانہ ہونا ہے؟جب سارے اکٹھے ہو جاتے تو تب وہ ہمیں راستے میں پڑھی جانے والی دعائیں بتاتے۔ ہم دعائیں پڑھتے ان کے پیچھے چل پڑتے۔ ان کا طریقہ تھا کہ عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے ایک رستہ اختیار کرتے جبکہ واپسی پہ دوسرا راستہ اور کہتے کہ عید والے دن زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملنا چاہیئے۔

چھوٹی عید پر بڑی شفقت سے مسکراتے ہوئے عید مبارک کہتے اور مجھے ایک روپیہ عیدی دیتے جبکہ بڑی عید پر اسی طرح مسکراتے ہوئے سمجھانےکے انداز میں فرماتے “یہ بڑی عید ہے !یہ گوشت والی عید ہوتی ہے!  اس لئے عیدی آدھی ملے گی۔ ” یہ کہتے ہوئے مجھے پچاس پیسے بطور عیدی دیتے۔ یاد رہے کہ یہ بات تقریبا چالیس سال پرانی ہے۔ بڑی عید پر قربانی کا اہتمام کرتے اور اکثر ہم سب مل کر قربانی کا گوشت بناتے۔ قربانی کا جانور کسی درخت کے پاس ذبح کرتے تاکہ اس کا خون درخت کی جڑوں  تک پہنچ سکے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ کھال کے علاوہ جانور کے تمام حصےگوشت میں شامل کرتے۔ گوشت کے تین برابر حصے بناتے اور پھر تقسیم کا کام شروع ہوجاتا۔

خالو کےجس گھر میں ہم بطور کرایہ دار رہے ۔اسکی مرمت کے دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم آجکل فارغ ہوتے ہو تو گھر کا کام ہی کر لو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسے آپ کہیں۔ انہوں نے کہاتو پھرٹھیک ہے تمہاری عمر کے حساب سے تمہیں بھی آدھی مزدوری بطور معاوضہ ملے گی۔ میں خاموش رہا۔ لیکن آج سوچتا ہوں کہ رشتہ داری اور ہمارے بڑے ہونے کے ناطے وہ مجھ سے یہ کام بلا معاوضہ بھی لے سکتے تھے لیکن انہوں نے بلا معاوضہ کام لینے کو معیوب سمجھا  یا       یوں کہہ لیجئے کہ میری حق تلفی کے مترادف جانا۔

“واہ بھئی واہ ،لے دسو” ان کا تکیہ کلام تھا۔ جب کوئی بات پسند نہ آتی تو ذرا حقارت سے “واہ بھئی واہ ،لے دسو” کہہ کے چلے جاتے اور جب کوئی بات ان کے مزاج اور مذاق کے مطابق ہوتی تو اس پر کھکھلا کے ہنستے اور آخر میں کہتے “لے دسو، واہ بھئی واہ” ۔ ان کا انداز ری ایکشن یعنی رد عمل کے بجائے ریسپانس  یعنی  طرزِ عمل والا ہوتا تھا۔ میں آج تک ایسا طرز عمل اختیار نہیں کر سکا۔ اور جس دن کامیاب ہو گیا ،علیحدہ سے ایک آرٹیکل اس پر لکھوں گا۔انشاء اللہ

میں آج بھی جب آبائی گاؤں جاؤں تو کبھی کبھار ان کی قبر پر حاضری دیتا ہوں اور اگر حاضری نہ دے سکوں اور گذر قبرستان سے قریب والی سڑک سے ہو تو دور سے سلام عرض کرتا ہوں۔

یادوں کے دریچے سے، ماضی کی تاریک راہوں  پر ، یاد کے جگنو ٹمٹما رہے تھے۔ اور مجھے آج خالو کی بے لوث محبت اور شفقت کا احساس پہلے سے بھی زیادہ ہو رہا تھا کہ ہمزاد نے آ دستک دی اور مخاطب ہوا، “جناب! آج پرانی یادوں کی گرفت میں ہیں ۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔ ” جانتے ہو! کہ تم میں نماز کی طرف توجہ کرنے کا جو تھوڑا بہت رجحان ہے۔ انکی شفقت کا ہی نتیجہ ہے اور ہاں! یہ جو تم عیدین پر چھوٹوں کو عیدی دینے کا اہتمام کرتے ہو انہیں کے طرزِ عمل  کی بدولت ہے۔ اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ محض نسبت پہ  اکتفا ءکرنے کےبجائے عمل کی نسبت پر توجہ ہونی چاہیئے۔ جو خود کار ہوتی ہے اور دل سے عمل کرنے  پر مائل کرتی ہے۔ جو اصل اثاثہ حیات ہے اور جس کی برکت سے چھوٹے چھوٹے اعمال زندگی میں رونق اور معاشرت میں یگانگت کے ساتھ ایسا صدقہ جاریہ ہیں جو نسل در نسل جاری رہ سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والوں کا تسلسل منقطع نہ ہو۔”

23 thoughts on “

ہمزاد سے مکالمہ(۴) طرز عمل

  1. ماشااللہ ب ایک تسلسل کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔میرا حملہ وضاحت کر رہا ہےکہ مصنف اور قارئین میں ایک تعلق بن گیا ہے۔ اب انتظار میں بھی لذت ہے۔خالو کی شخصیت اچھے وقتقں کا استعارہ ہے۔کچھ خاہشوں کا اظہار ہے جو تشنہ ہیں ۔

  2. Very well explained “to Act”. You unleashed it Sir, it makes me think that just by not to act how far we are from us, our near and dears, even our relogion.. Thanks for making the readers aware of the importance of “Act”. Humble Ragards

  3. صابری کے بچپن کی جھلک لاجواب لگی۔ خوبصورت فطری انداز۔ تصنع اور کا دور دور تک شائبہ نہیں۔ کس عمدگی سے یادوں کا جھروکا کھولا اور کس فراخ دلی سے قارئین کو بھی اندر آنے دیا کمال ہے۔ اوائل ِِبچپن کی معصومیت کی خوشبو میں رچی بسی حرکات غیر محسوس طریقے سے دل و دماغ میں اتر کر کھل اٹھتی ہیں۔ صابری کا انداز لاجواب ہے۔

  4. صابری کے بچپن کی جھلک لاجواب لگی۔ خوبصورت فطری انداز۔ تصنع اور بناوٹ کا دور دور تک شائبہ نہیں۔ کس عمدگی سے یادوں کا جھروکا کھولا اور کس فراخ دلی سے قارئین کو بھی اندر آنے دیا کمال ہے۔ اوائل ِِبچپن کی معصومیت کی خوشبو میں رچی بسی حرکات غیر محسوس طریقے سے دل و دماغ میں اتر کر کھل اٹھتی ہیں۔ صابری کا انداز لاجواب ہے۔

  5. Andaz e biyann intahaii dilkash!!
    Hmarii samatoo ko ye tehrerr yoo mehsoss hoti h k jase hm os mahool ma hi jee rahy ha

  6. ‘ بارہویں کھلاڑی ‘ میں وہ بات نہیں جو پہلی اقساط میں ہے۔ مصنف ذہنی دباؤ کا شکار لگ رہے ہیں ۔آفاقیت کی بجائے لمحہ موجود میں الجھے دکھائی دیے۔ نام تجویز کر لینے کے اس کے ارد گرد الفاظ کا جال بنتے دکھائی دیے۔ شاید یہ کسی آئیندہ شہ پارے کی تمہید ہو۔

Leave a Reply to Zeeshan Bashir Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *