اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے

اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے

فرحت احساس

گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

فیض احمد فیض

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

مرزا غالب

جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں

اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے

گلزار