ایک رات میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کہیں کام سے گیا اور گھر پر چھوٹے بچوں کو چھوڑ گیا۔ ہمیں واپسی پر قدرے تاخیر ہوگئی۔

واپس پہنچ کر میں نے گھر کے دروازے پر دستک دی لیکن کوئی آواز نہ آئی اس کے بعد باری باری ہم سب نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس کے باوجود اندر سے کسی نے بھی پلٹ کے جواب نہ دیا ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمسائے اور محلے کے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ مجھے بھی طرح طرح کے وسوسوں نے گھیر لیا اور میں پریشان ہو گیا کہ کہیں خدانخواستہ کوئی انہونا واقعہ پیش نہ آ گیا ہو۔ آخر گھر میں بچے ہی تو تھے ۔ ان سے کسی بھی نادانی کی توقع رکھنی چاہیے تھی۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 گھر کی تین منزلیں تھیں جن میں سے ہم دوسری منزل کے بیڈرومز سونے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ جب کافی دیر ہوگئی اور مجمع بھی کافی لگ گیا تو میں نے فیصلہ کیا کہ ہمسایوں کے گھر سے اپنے گھر کی چھت پر جا کر تیسری منزل سے آواز یا دستک دوں، تو شاید بچوں تک آواز پہنچ جائے۔ کافی مشکل کے بعد جب میں تیسری منزل پر پہنچا تو صورتحال ویسی ہی رہی چونکہ بچے دوسری منزل پر تھے جبکہ میں پہلے گراؤنڈ فلور سے اور اب تیسری منزل سے انہیں جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لہذا دوسری منزل سے فاصلہ یکساں ہونے کے باعث میری چیخ و پکار اور زوردار دستک کے باوجود کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔

 پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ تیسری منزل پر موجود سیڑھیوں کی طرف کھلنے والے دروازے کی کنڈی جو کہ اندر کی جانب اینٹ میں سوراخ کرکے لگائی گئی تھی۔ شاید زورآزمائی پر ٹوٹ جائے اور دروازہ کھل جائے لیکن کندھے سے زوردار دھکے لگانے کے باوجود اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بالآخر میرا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ چونکہ بچوں کے متعلق واہمے اوروسوسے  مجھے اندر سے کھائے جا رہے تھے۔ میں نے دروازے سے ذرا پیچھے ہٹ کر دو چار قدم دوڑ کر طاقت بنائی اور پھر ایک زوردار وار دائیں ٹانگ سے کنڈی کے عین اوپر کیا۔ جس سے کنڈی، اینٹ توڑتی ہوئی کھل گئی۔ میری جان میں جان آئی دوڑ کے بچوں کو دیکھا تو اللہ تعالی جل جلالہ کے فضل و کرم سے سب ٹھیک تھا۔

 

 

بچے گہری نیند سو رہے تھے۔

 

 صبح اٹھنے پر جب سارا واقعہ بچوں کو سنایا تو میری بیٹی نے بڑی حیرت سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کمال ہے! پاپا نے اتنے آرام سے دروازہ توڑا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ سن کر ہم سب ہنسنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے کہ اچھا لمیم کاکو تو پھر تمہارے پاپا نے اتنے آرام سے دروازہ توڑا کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چلا۔ مریم بیٹی کو ہم پیار سے  لمیم کاکو کہتے ہیں ۔

 

اس واقعے کے ساتھ ہی مجھے  تقریبا 25 سال پرانا اپنا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب میں انیس سو پچاسی میں ایچ نائن کالج اسلام آباد میں ایف ایس سی سال اول کا طالب علم تھا۔ یہ وہ دن تھے جب کھیلنے، کھانے اور پڑھنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔ ہاسٹل میں کھانے پینے کا بہترین انتظام تھا۔ ماہانہ خرچ فکس نہ تھا بلکہ ضرورت کے مطابق جتنا مانگتا اس سے کچھ زیادہ ہی مل جاتا۔ ہاسٹل کے علاوہ باہر سے بھی جب جی چاہتا کھا پی لیتا۔  گویا فکرامروزوفردا کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔

 

 ہاسٹل کے کمرے میں میرا دوست محمد بشیر جو چھٹی کلاس سے اب تک میرا کلاس فیلو تھا۔ میرا روم میٹ بھی تھا۔ ایک دن سہ پہر کے وقت اس نے کہا کہ میں اپنے کزن سے ملنے راولپنڈی جا رہا ہوں، تم بھی ساتھ چلو۔ میں نے کہا کہ مجھے تو سخت نیند آ رہی ہے لہذا تم اکیلے ہی مل آو۔ جیسے ہی وہ کمرے سے نکلا میں نے کنڈی لگائی اور سو گیا۔ اتفاق سے جاتے ہوئے وہ اپنا بٹوا کمرے میں ہی بھول گیا۔ اسے بس سٹاپ پر پہنچنے سے پہلے ہی احساس ہوگیا کہ وہ بٹوا ساتھ نہیں لایا لہذا الٹے پاؤں واپس پلٹا۔ اسے جانے اور واپس آنے میں بمشکل دس منٹ لگے ہوں گے۔

 

دروازہ بند دیکھ کراس نے پہلے آہستہ آہستہ  دروازے پر دستک دی۔ پھر ذرا زور سے دستک دی اور بلند آواز میں نام بھی پکارا لیکن میں خواب خرگوش کے مزے لیتا رہا ۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ساتھ والے کمرے سے ہو کر دوسری جانب بالکنی میں لگے دروازے پر دستک دی۔ کھڑکی میں سے زور زور سے آوازیں بھی دیں۔ لیکن میں ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس مشق میں جب 10 سے 15 منٹ گزر گئے تو دائیں بائیں کے کمروں سے لڑکے اکٹھے ہونے لگے اور چہ میگوئیاں شروع ہوگئی کہ بھائی! یہ تو ہل بھی نہیں رہا،خیر ہو۔ بھلا ایسے بھی کوئی سوتا ہے۔ کوئی کہے جان بوجھ کر مستی کر رہا ہے۔ کسی نے کہا ہاہا دیکھو! پینڈو گدھے بیچ کے سو رہا ہے۔ الغرض جتنے منہ اتنی رنگا رنگ باتیں۔

 

 جب سب تھک ہار گئے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وارڈن صاحب کو بتا کے دروازہ توڑنا چاہیے۔ سب لڑکے وارڈن کے پاس جانے لگے تو ایک منچلے، بے تکلف ہاسٹل فیلو نے زور سے دروازے پر پاؤں مارا اور بلند آواز میں بولا ڈنگر اٹھ بھی جا!

 

 مجھے لگا جیسے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی ہے۔ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا اور حیران بھی تھا کہ سب لڑکے مین راستہ چھوڑ کے بالکونی والے دروازے پر کیوں کھڑے ہیں ؟ دروازہ کھولا تو پھر انہی جملوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی جو میرے سوتے ہوئے وہ سبھی میری شان میں ارشاد فرما رہے تھے۔ میں اپنا سا منہ لے کے رہ گیا۔

 

ایک وہ دن تھے اور ایک یہ دن ہیں۔ کبھی دن  میں بھی گہری نیند آ جاتی تھی اور اب حال یہ ہے کہ رات کا کچھ حصہ نیند کے انتظار میں ہی گزر جاتا ہے۔ وہ بے فکری اور بے فکری کی نیند،تب ہی میسر تھی اب تو اتنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے اس بے فکری کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔