کچھ ان کہی باتیں۔۔۔

کچھ ان کہی باتیں۔۔۔

یادوں کے دریچے میں جھانک کر دیکھوں تو ہر واقعہ ایک مجرد تصویر بن کر ابھرتا ہے جس کے رنگ زندگی کی دوڑ دھوپ میں پھیکے پڑنے کے بجائے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ زندگی کے یہ نقوش محض تصویریں نہیں بلکہ ہماری معاشرت، تہذیب اور قومی مزاج کی آئینہ دار بھی ہیں جن سے کبھی کبھی اپنی کم مائیگی کا احساس جنم لیتا ہے تو کبھی ہماری قوم کی بے سمتی کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے۔

 

یوں لگتا ہے کہ ہم سبھی محض نقال ہیں کہ ہمیشہ بڑوں، بزرگوں اور من پسند شخصیات کی بھونڈی نقالی میں عمر گزار دی۔ نہ جذبوں کے تقدس کوسمجھ پائے اور نہ ہی ان جذبات کےلئے اظہارکے ذرائع تلاش کر پائے۔ کچھ جذبے جو پاکیزہ تھے، عجلت میں اُن کی تاثیرنہ سمیٹ سکے اور کچھ احساس خالی از بیان رہ گئے۔

 

ہمارے کل اور آج میں زیادہ فرق نہیں۔ بیتے کل کے پچھتاوے آج کی زندگی کو بے رونق کر رہے ہیں تو آج کی بے عملی آنے والے کل کے پچھتاوں کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ بے بسی اور بے حسی کے اس دور میں نہ دور اندیشی کار گر ثابت ہو رہی ہے اور نہ ہی موجودہ صورت حال سمجھ میں آ رہی ہے۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہر کوئی ایک دوسرے سے ٹکراتا، گرتا اور اٹھتا چلا جاتا ہے،جی ہاں! چلا جاتا ہے مگر کہاں؟ کوئی نہیں جانتا۔ نہ راستہ نہ منزل، بس اک سفر ہے جو کسی انجان منزل کی جانب ہر ایک نے پورا کرنا ہے۔ نہ زندگی کا معیار اور نہ ہی زندگی کا مقصد بقول مرزا غالب

؎ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔

اک عجیب، نہ سمجھ آنے والی کیفیت ہے جس کا ہر کوئی اسیر ہے۔ کچھ قرض ہیں جن کا ہر کوئی امین ہے۔ زندگی بیگار کی ماند دکھائی دیتی ہے جس سے کسی خواب کے شرمندہ تعبیرہونے کی امید دیوانے کا خواب بن کر رہ گئی ہے۔

 

پھر سوچتا ہوں کہ نا امیدی کفر ہے اور ایک کم درجہ مسلمان ہونے کے باوجود اس تصور سے دل کانپ اٹھتا ہے کہ نا امیدی کے ارتکاب کا بوجھ یہ نحیف کندھے کیونکر اٹھا سکیں گے۔ ایک بات جو تقویت کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ رب اپنے بندوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس قدسی فرمان پر دل خوشی سے جھوم اُتٹھتا ہے کہ خالق کائنات نے مجھے اتنی صلاحیتیں دی ہیں جتنا ذمہ داریوں کے بوجھ سے نوازا ہے۔

لیکن کبھی کبھی اس کے بر عکس یہ خیال اضطراب میں بھی مبتلا کر دیتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ بہت سے کام میں نے خود ہی اپنے ذمہ لے لیے ہوں جو کہ میری خام خیالی یا کم دانست کے سبب مجھے مشکل سے دو چارکرتے ہیں۔ اور کبھی یہ خیال بھی موجزن ہوتا ہے کہ جو راستہ ہمیں دکھایا گیا تھا اس سے ہم بھٹک گئے اور نتیجةً  اس بار گراں تلے خود کو گھسیٹتے آگے بڑھنے کی سعی لا حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اخلاقیات کے باب میں تو کوئی اجتماعی اخلاقیات نظر ہی نہی آتی۔ یوں لگتا ہے ہر کسی نے اپنی اپنی اخلاقیات مرتب کر لی ہے جو ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔

 

مرکزیت کا تصور ناپید ہوتا جا رہا ہے کہ اس کی جھلک اب نہ خاندانوں میں کہیں نظر آتی ہے اور نہ ہی حکومتوں میں کہیں دکھائی دیتی ہے۔ سوشل میڈیا نے سچ اور جھوٹ کی اتنی کہانیاں سنا دی ہیں کہ سچ کو جھوٹ سے الگ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ گلوبلائیزیشن کا تصور  جدید دنیا میں میڈیا کی روزافزوں ترقی کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اور اس نے ہر معاشرت پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں جس سے ہر معاشرہ اور تہذیب کی اقدار میں تبدیلی اور تنزلی کا رجحان ہے۔

 ہاں تو بات ہو رہی تھی یادوں کے دریچے سے نظر آنے والی اُن مجرد تصویروں کی جن کے ساتھ واقعات کی کڑیاں منسلک ہیں۔ جنھیں چشم تصور سے دیکھ کر چشم زدن میں دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ کبھی حسرت و یاس تو کبھی خوشی و امید کے جذبے گردش خوں میں موجزن ہوتے ہیں۔ کبھی تسخیرکائنات بھی ممکن دکھائی دیتی ہے تو کبھی خود اپنی ذات کی تسخیر بھی جوئے شیر لانے کے مترادف۔ انسان اتنا با اختیار اور بے بس کیسے ہو جاتا ہے؟ وہ کون سی چیز ہے جو انسان کے لا شعور سے شعوری ادراک میں آتے ہی دنیا بدل دیتی ہے۔

 

 کبھی سوچتا ہوں کہ شاید یہ مثبت خیال کی طاقت ہے جو ہمارے ساتھ آلودگی کی نظر ہو گیا ہے۔ خیال کی آلودگی نے ہمارے عمل کو آلودہ کر دیا ہے اور یوں ہم آلودہ خیالی سے آلودہ عملی کا شکار ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں سارا منظر ہی دھندلا گیا ہے اور اس دھندلے منظر میں ہم سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے سے قاصرہیں۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ اچھے عمل کا نتیجہ اچھا نہ ہو۔ قانون فطرت تو ہمیشہ سے کسی ایک شے کے بارے میں ایک ہی ہوتا ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ تو پھر ہمارا بے ثمرسفر اور لا حاصل زندگی کہیں انہیں خلاف فطرت اعمال اور فطرت کے کاموں میں دخل اندازی کا نتیجہ ہی نہ ہوں۔

 

کبھی یوں لگتا ہے کہ دنیا میں جتنے مذاہب و مسالک ہیں، سب کے سب اصل میں دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جو حق کی آواز ہے اور دوسرا اس کا مخالف۔

 

جدید دنیا نے جہاں حصول علم کے ذرائع کی دستیابی آسان بنا دی ہے وہیں بغیر استاد کے علم نے روشنی کی بجائے اندھیری راہوں سے متعارف کروایا ہے چونکہ حرف کی حقیقت اور علم کی سچائی کی سند کسی اہل نظر استاد کے پاس ہی ہو سکتی ہے جو تربیت کے ذریعے یہ علمی میراث اپنے جانشینوں کو تفویض کرتا ہے۔

 

موجودہ دور میں جب استاد بھی آگے بڑھنے کی دھن میں اپنے منصب کے فرض اولین یعنی تربیت کو یکسر بھلا بیٹھا ہے جس کے نتیجے میں تعلیم تاثیر سے اور زندگی عمل سے خالی ہو گئی ہے۔

محمد نعیم صابری

29-06-2020

 

3 thoughts on “

کچھ ان کہی باتیں۔۔۔

  1. محمد نعیم صابری صاحب کا مضمون ” کچھ ان کہی باتیں” نظر سے گزرا۔ عنوان کے مصداق ایسی ان کہی باتیں مفصل بیان کی گئی ہیں جن کی طرف قلم قدم بڑھاتے ہوئےگبھرا جاتے ہیں۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جو قلم سے الجھ کر اسے بے دست و پا کر دیں۔ لیکن صابری صاحب کے قلم نے جس مہارت اور چابکدستی سے ان موضوعات کوسّر کیا ہے وہ اسی کا طرہُ امتیاز ہے۔ خیالات کی بہتات اور روانی دیکھ کر لگتا ہے کہ
    غالب نے اِن کے لئے ہی تو کہا تھا
    آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
    غالب سریرِ خامہ نوائے سروش ہے
    صابری کے پاس تشبیہات، استعارات اور مرکبات وافر موجود ہیں۔ خیال کی پختگی اور بیان کی مہارت، تازگی، لطافت و روانی کے سامنے محمد حسین آزاد کا کمالِ فن تصویرِ حیرت بنا انگلیاں کاٹتا دکھائی دیتاہے۔

  2. آپ نےبڑی شفقت و محبت کا اظہار کیا ہے۔اس کیلئے شکر گزار ہوں۔آپ کی طرف سے تنقید کا بھی انتظار رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *