ہمدم دیرینہ کی یاد میں – پہلا حصہ

جب میری بائیسکل “مرزا کی بائیسکل” کے ہم پلہ،  ہم شکل اورہم رتبہ ہو گئی۔ تو  ۶۳۹۔اے سبزہ زار کالونی کے بقیہ چار مستقل ممبران نے مشورہ دیا کہ مجھے اب سائیکل سے سڑک پر چلتے لوگوں کو ڈرانے کا کام بند کر دینا چاہیےچونکہ  چلتے چلتے سائیکل کا ہینڈل یک لخت ایک طرف کو کِھسک جاتا۔ اور سامنے سے آنے والوں میں سے جس کی نظر ہینڈل پر پڑتی اسے لگتا میں بائیں مڑنے والا ہوں جبکہ جس کی نظر پہیے پر پڑتی تو اسے میں سیدھا جاتا محسوس ہوتا لیکن جس کی نظر ایک ساتھ ہینڈل اور پہیے دونوں پر پڑتی وہ ٹھٹھک کر رہ جاتا اور میرے بارے میں فوری فیصلہ نہ کر پاتا کہ میں کیا کرنے والا ہوں؟

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

 انہیں دنوں ایک بائیک جو کسی ریٹائرڈ بینکر کی تھی۔ مجھ تک اس کے برائے فروخت ہونے کی خبر پہنچی ۔ مستقل ممبران کا اجلاس منعقد ہوا اور باہمی گفت و شنید کے بعد یہ طے پایا کہ پانچ میں سے کم از کم ایک مستقل ممبر کے پاس بائیک ہونی چاہیے۔ لہذا باہمی تعاون کی پالیسی کے تحت بائیک خریدنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا اور اگلے چند دنوں میں ہم یہ بائیک گھر لے آئے۔

 

 بائیک پر پہلا دن بڑا یادگار ہے میں صبح سویرے معمول کے مطابق تیار ہو گیا لیکن آج معمول کی جلدی ہرگز نہ تھی۔ ایک دوست نے چھیڑ خوانی کے انداز میں پوچھا کہ جناب نے کالج نہیں جانا میں نے قدرے اطمینان سے جواب دیا کہ بھائی آج پہلے کی طرح پون گھنٹہ تھوڑا ہی لگے گا بلکہ اب تو صرف پندرہ سے بیس منٹ کا راستہ ہے۔ دوست نے مزید لقمہ دیا کہ جناب اب افسر ہوگئے ہیں۔ میں نے ہنسی میں اس کی بات ٹال دی۔

 

 میں گھر سے تقریبا آدھ گھنٹہ پہلے نکلا  تاکہ کسی طرح کی جلدی اور تیزی کئے بغیر وقت پر کالج پہنچ سکوں۔ سائیکل چلانے کی مشقت سے جو جان چھوٹی تو ہر چیز خوبصورت نظر آنے لگی۔ راستے کے مناظر آج پہلے جیسے نہ تھے بلکہ اس بائیک کی بدولت آج ہر منظر اجلا اجلا اور خوشنما لگ رہا تھا۔ حتی کہ ٹریفک کا شور بھی کانوں کو بھلا لگ رہا تھا۔اس آسائش کی بدولت جو وقار اور سہولت میں محسوس کر رہا تھا اس نے میرے اندر کی دنیا میں رونق بھر دی۔ اندرونی کیفیت جو بدلی تو اس نے باہر کی دنیا کو جاذب نظر اور خوشگوار بنا دیا ۔

سائیکل سے بائیک تک پہنچنے میں اگرچہ کچھ عرصہ لگا لیکن یہ تجربہ نہایت خوشگوار تھا۔ سائیکل چلانے کے لئے جتنی طاقت اور مشقت درکار تھی، بائیک چلانے کے لئے اس کی چنداں ضرورت نہ تھی بلکہ بائیک کی رفتار تو ہاتھ کے اشارے سے ہی کم یا زیادہ ہو جاتی تھی۔

 

 سواری بدلنے سے مشقت میں کمی آئی اور وقت کی بچت بھی ہوئی۔ اس وقت اور توانائی کو میں نے ری انویسٹ کرتے ہوئے کچھ مزید ٹیوشنز پڑھانا شروع کر دیں۔ اس عمل کے نتیجے میں  وقت اب میرے پاس پہلے سے بھی کم رہ گیا اگرچہ آمدنی میں اضافہ ہوگیا۔ اور اس اضافہ کو برقرار رکھنے کے لئے میں نے بائیک اور خود کو پہلے سے زیادہ نظرانداز کر دیا۔ بائیک کی ٹیوننگ اور مرمت کے حوالے سے کسی باقاعدہ شیڈول کی پابندی نہ ہو سکی لہذا جب کبھی بھی بائیک خراب ہوتی تو اسے مکینک کے پاس لے جاتا ۔

 

اگست سے مارچ تک پڑھانے کےلیےخوب ٹیوشنز ہوتیں لیکن اپریل سے گراف گرنا شروع ہو جاتا اور کم و بیش جولائی تک حالات  دگر گوں ہی رہتے۔ ماہانہ اخراجات میں چونکہ کوئی کمی نہ ہوتی لہذا آٹھ مہینوں کی بچت اگلے چار مہینوں میں برابر ہو جاتی اور اپنی حالت پھر” جیسے تھے” والی ہو جاتی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ بائیک کے حلیے میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ سب سے پہلے اگلے دونوں اشارے ڈھیلے ہوئے پھر ان کے نٹ کھل کر اشارے کے اندر ہی گر گئے۔ اس دوران اشارے تار کے ساتھ لٹکتے ہوئے یوں لگتے جیسے بیماریا تھکا ماندہ بیل چھاؤں میں استراحت کے لیے بیٹھا اپنے دونوں کان  نیچے گرا دیتا ہے۔ اور جب تار بھی اشاروں کا بوجھ اٹھانے میں ناکام ہوگئی تو پھر معلوم نہیں کہ ایک اشارہ کہاں گرا اور دوسرا کہاں؟

 

 جب تک اشارے گرے، میں بائیک چلانے میں کافی ماہر ہو چکا تھا۔ چونکہ اشاروں کا کام اب میں ہاتھوں سے لینے کے قابل ہو چکا تھا لہذا میں نے نئےاشارے لگوانے کو بائیک اور خود پر اضافی بوجھ سمجھا۔

 

 کچھ عرصے کے بعد ہیڈ لائٹ بھی ہلنا شروع ہوگئی۔ البتہ ہیڈلائٹ ایک دفعہ مرمت کروانے کے بعد کافی دن تک ٹھیک رہتی اور پھر آہستہ آہستہ ڈھیلی ہونے لگتی۔ ڈھیلی ہیڈ لائٹ کے ساتھ اکثر لائٹ اتنی قریب ہو جاتی جیسے پیدل چلنے والے ٹارچ لے کر چلتے ہیں اور ان کے قدموں سے تھوڑا آگے ٹارچ کی روشنی ہوتی ہے۔

 

  ہیڈلائٹ کو بار بار ہاتھ سے اوپر اٹھانا پڑتا، تاکہ لائٹ ذرا فاصلے پر پڑے جہاں بائیک چلاتے ہوئے اس کی ضرورت ہوتی ہے اس پر مستزاد یہ کہ کبھی کبھی مڈ گارڈ (Front Fender)کے پیج جو ڈھیلے ہوتے تو مڈگارڈ کبھی آگے اور کبھی پیچھے کو کھسک جاتا اور ٹائر سے رگڑ کھانے  لگتا جس سے آواز بھی پیدا ہوتی اور بائیک چلانے میں دِقت بھی۔ لہذا ایسی صورتحال میں ایک مرتبہ میں ہیڈلائٹ درست کرتا اور دوسری مرتبہ مڈ گارڈ (Front Fender)کو اپنی جگہ پر لاتا اور مسلسل یہی عمل دہراتا منزل مقصود تک پہنچ جاتا۔

 

یہ ایک ٹو سٹروک بائیک تھی۔ زیادہ تیز چلانے پر اس کے پلگ میں کچرا آ جاتا۔ پلگ نکال کر  صاف کرنا پڑتا تو پھر کرنٹ بحال ہوتا اور بائیک چلتی۔ جب یہ مرض پرانا ہو گیا تو میں نے ایک نیا کرنسی نوٹ اس غرض سے اپنے پاس رکھ لیا کہ اس سے پلگ سے کچرا صاف کرنا آسان ہوتا تھا۔

11 thoughts on “

ہمدم دیرینہ کی یاد میں – پہلا حصہ

  1. تصویر بہت عمدہ ہے…
    عنوان اور اس کا موضوع کافی دلچسپ ہے.
    بائیک کو خریدنے کا جو کابینہ کافیصلہ ہے اس کو پڑھ کر کچھ اپنی بائیک کا قصہ یاد آگیا

  2. نہایت مزیدار۔ مرزا کی بائیسکا سے صابری کی موٹر سائیکل کا سفر ایک شاندار مستقبل کا آغاز ہے۔

  3. صابری صاحب کی دیرینہ ہمدم کمال چیز تھی۔ اسے اس نوبت تک لانے میں جس کا انہوں نے اپنے مضمون،”ہمدمِ دیرینہ حصہ اول” میں ذکر کیا ہے صابری کو بہت محنت کرنا پڑی۔ ایک بار میری صابری صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے صابری صاحب سے کہا” صابری موٹر سائیکل کو لاک ضرور لگایا کریں” آگے سے مسکرا کے کہتے ہیں،” اسے میرے علاوہ کوئی چلا ہی نہیں سکتا تو لاک کی کیا ضرورت”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *