ہمزاد سے مکالمہ(۵) بارہویں کھلاڑی

بارہویں کھلاڑی

یہ دنیا ایک کھیل ہے اور دنیا والے اس کے کھلاڑی۔ کھیل اور کھلاڑی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بہت سے کھلاڑی ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اچھا کھیل کھیلنے کے باوجود پذیرائی اور کامیابی نہیں ملتی جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں کہ جنھیں کھیلنا ہی نصیب نہیں ہوتا۔

 ایسے تمام لوگ جن کے رتجگوں  کو طلوع  سحر نصیب نہ ہو سکی جن کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوئے جن کی مسافتوں کو گھنی چھاؤں اور ریاضتوں کو منزل نہ مل سکی۔ وہ جام جو تشنہ لبی کا شکار ہوئے۔ وہ کلیاں جو بن کھلے مرجھا گئیں۔ طاق نسیاں کے وہ دیئے جو اپنی آخری بوند تک جلا کے بھی روشنی نہ کرسکے۔ امیدواروں کی امیدوں کے وہ ٹمٹماتے چراغ جو ان کی آنکھوں میں ان کے ساتھ ہی سو گئے۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں کے خواب سجائے کتبے لکھواتے ہیں لیکن وہی کتبے بالآخر تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ان کی قبروں پر لگا دیے جاتے ہیں۔ سب کے سب بارہویں  کھلاڑی ہیں۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 ان بارہویں کھلاڑیوں کا اطلاق ہماری پوری معاشرت پر ہوتا ہے اس کی کئی صورتیں ہیں

بقول فیض احمد فیض

 ؎ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے

 حسرت دل گیر اور صورت تقصیر لیے نونہالان وطن جو گندگی کے ڈھیروں سے اپنا رزق اکٹھا کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کے خواب شاید اچھے کھانے اور اجلے کپڑوں سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ جو ننگ انسانیت کی کھلی مثالیں اور مہذب معاشروں کے گال پر طمانچہ ہیں۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سب بارہویں کھلاڑی ہیں اور یہ بارہویں کھلاڑی بڑے ہوکر مزید بارہویں  ۔کھلاڑیوں کو ہی جنم دیتے ہیں۔

جابجا گداگری کی صورت میں اپنی عزت نفس کا روزانہ جنازہ نکالتے ہوئے لوگ اور جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کی خاطر اپنے ہی وجود کا سر بازار مول لیتے ہوئے چہرے سب بارہویں کھلاڑی ہیں۔

 ہمارے اداروں میں جہاں چند لوگ بقیہ تمام لوگوں کو نکما اور کم ذات ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔ اور جن کی حیثیت طویل خدمات کے باوجود اک جنبش ابرو سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بارہویں کھلاڑی ہی تو ہوتے ہیں جنہیں کسی بھی وقت بے دخل کیا جا سکتا ہے اور آفرین ہے ایسے احباب پر جنہیں بیسیوں سال ساتھ رہنے کے باوجود یہ علم نہیں ہو پاتا کہ کام کرنے والوں کی اصل استعداد کیا ہے؟

 زندگی کے ہر شعبے میں بارہویں  کھلاڑی ہوتے ہیں جو تمام تر صلاحیتیں ہونے کے باوجود اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب موقعہ ملے اور وہ بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔ جبکہ کچھ بارہویں کھلاڑی  ایسے ہوتے ہیں، جن کی کمٹمنٹ کے بل بوتے پر بہت سے ہوشیار کھلاڑی اپنا کھیل کھیلتے ہیں۔  ایسے لوگ ہر اچھے کام کو اپنا اور ہر خراب کام کو بارہویں کھلاڑی کے کھاتے میں ڈال کر  اپنی انتظامی صلاحیتوں کا ثبوت دیتے ہیں۔

 

 گھر میں خاوند کی حیثیت بھی بارہویں  کھلاڑی جیسی ہوتی ہے۔ اگرچہ ہر بیوی خود کو معاملہ فہم اور دانشمند سمجھتی ہے لیکن جب معاملات ہاتھ سے نکل جائیں تو اسی بارہویں کھلاڑی یعنی خاوند کو اپنی بساط کے مطابق آخری بازی کھیلنا پڑتی ہے۔

 ہر گھر میں چھوٹا فرد بھی گھر کا بارہواں کھلاڑی ہوتا ہے جو ہر کسی کی ڈانٹ ڈپٹ   برداشت کرتا ہے اور سب کے حکم کی بجاآوری بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی کامیابیوں کا کوئی ہار اس کے گلے کی زینت نہیں بنتا البتہ بعض گھرانوں میں چھوٹوں کو کچھ رعائتیں بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔

 ریلوے اسٹیشنوں، لاری اڈوں اور بینکوں کے باہر لگی بھیڑ، پھیری والے، ٹھیلے والے اور ہمارا مزدور طبقہ سب بارہویں کھلاڑیوں کی تصویریں ہیں۔ جن کے لئے بسا اوقات زندگی اور موت میں فرق کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور ان میں سے بعض موت کو آسان سمجھ کر اس کی آغوش میں سر رکھ دیتے ہیں۔

 میری سمجھ میں بارہویں  کھلاڑیوں کی صرف ایک قسم ایسی ہے جنہوں نے نظریہ ضرورت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اپنی جگہ بنا رکھی ہے۔ اور وہ ہیں ہمارے سیاسی نظام میں موجود آزاد امیدوار، جن کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں اکثر حکومتیں بنانے اور گرانے کا کھیل انہی کے بل بوتے پر کھیلا جاتا ہے۔

 

 میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ کسی کی آواز سنائی دی “آج مجھے یاد نہیں کیا” میں نے پوچھا کون ہو؟ جواب ملا تمہارا ہمزاد، میں نے کہا جس ملک کی نوے فیصد آبادی بارہویں کھلاڑیوں پر مشتمل ہو وہاں تم بھی کیا رائے دو گے؟ ہمزاد نے کہا یہ مسئلہ اتنا بھی گھمبیر نہیں اور ہاں! تم جسے  90 فیصد عوام کا اجتماعی مسئلہ سمجھ رہے ہو اصل میں انفرادی مسئلہ ہے اور اس کا حل تشخیص ذات میں مضمر ہے۔ جو کوئی خود کو پہچان گیا وہ کامیابی کا راز پا گیا ۔ جب کہ ہمارے لوگ تو اپنے حقوق تک سے ناواقف ہیں اور اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کے ارباب اختیار نے دوسروں کو بارہویں کھلاڑی بنا رکھا ہے۔

 

25 thoughts on “

ہمزاد سے مکالمہ(۵) بارہویں کھلاڑی

  1. زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!

    ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

  2. Well said sir, you have presented ful picture of 12 player in the society, congrats,
    I really impressed so in my words…..it is like that,
    Like a straw flying in the air
    Flowing in the water
    Where to stay,
    Crawling on limbs slowly
    Creeping on belly
    Where to go,
    Wants to have everything
    But getting nothing
    Where to get,
    Trying to stop every cruelty
    Knowing there is no end
    Where to stop,
    Thinking of catching a star
    But the ladder never reach
    Where to catch,
    Questioning the rate of success
    Racing and racing for it
    Where to achieve,
    Longing for real world and love
    Setting the boat for it where to anchor,
    Fighting for rights and duties
    Scattered here and there
    Where to select,
    Reading the unread chapters
    Solution is still unknown
    Where to solve,
    Colors of life are dancing
    And moving on the waves
    Where to dive,
    Wanting the polite eternal mercy
    The divine and pure to rest
    There is your Lord,
    O, God O, God.

  3. بات خدی پہ ختم ہوئی….

    اقبال نے بھی کہا.
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

  4. صابری صاحب نے بارہویں کھلاڑی کو مکمل تفصیل سے پیش کیا ہے۔ بارہواں کھلاڑی بلا شبہ ہر معاشرے کا جزوِ لازم ہے۔ معاشرے کی ہر پرت اٹھا کے دیکھیں تو بارہویں کھلاڑی بہتات میں ملیں گے۔ بارہویں کھلاڑی کے بغیر ٹیم کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر بارہویں کھلاڑیوں کی ٹیم بھی بنائی جائے تو اس میں بھی بارہواں کھلاڑی ہو گا۔ بارہواں کھلاڑی بہر حال تماشائی سے بہتر ہوتا ہے جسے کبھی نہ کبھی کارکردگی دکھانے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔
    میں سوچ رہا ہوں کہ ہماری کمیونٹی کی طرح کیا ہمزاد کی بھی کوئی کمیونٹی ہے جس میں آب و دانہ اور دام و نشیمن کے ایسے ہی معاملات ہیں۔
    نعیم صابری یہاں انتہائی خوبصورت پیرائے میں عمل کی ضرورت پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں
    جتن کرو کجھ دوستو توڑو موت دا جال۔
    صابری کا قلم زنجیر میں کمزور جوڑوں کی نشاندہی جیسے عظیم کام میں ہمہ تن مصروف ہے۔ معاشرے کے تمام چبھتے ہوئے پہلو ایک ایک کر کے صابری کی تیز نظر میں آ کر اس کے تند و تیز رفتار قلم کی
    گرفت میں آتے جارہے ہیں۔ صابری کی یہ تحریریں اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

  5. ہے لیکن ‘ بارہویں کھلاڑی ‘ کے سلسلے میں
    الجھاؤ کا شکار۔ جسے مقع مل گیا وہ اس فہرست سے خارج ہو گیا۔۔ ⁷ صابری قلم تو رواں ہو گ یہتوانلوگوں کی بات جو کسی بھی وج سے خود کو منوانے میں ناکام ہو گئےیا

  6. صابری صاحب! مجھ سے اس font مں نہیں لکھا جاتا۔ آپ جانتے ہیں میرا نمبر 8ہے۔

  7. صابری صاحب نے بارہویں کھلاڑی کو مکمل تفصیل سے پیش کیا ہے۔ بارہواں کھلاڑی بلا شبہ ہر معاشرے کا جزوِ لازم ہے۔ معاشرے کی ہر پرت اٹھا کے دیکھیں تو بارہویں کھلاڑی بہتات میں ملیں گے۔ بارہویں کھلاڑی کے بغیر ٹیم کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر بارہویں کھلاڑیوں کی ٹیم بھی بنائی جائے تو اس میں بھی بارہواں کھلاڑی ہو گا۔ بارہواں کھلاڑی بہر حال تماشائی سے بہتر ہوتا ہے جسے کبھی نہ کبھی کارکردگی دکھانے کا موقع مل ہی جاتا ہے۔
    میں سوچ رہا ہوں کہ ہماری کمیونٹی کی طرح کیا ہمزاد کی بھی کوئی کمیونٹی ہے جس میں آب و دانہ اور دام و نشیمن کے ایسے ہی معاملات ہیں۔
    نعیم صابری یہاں انتہائی خوبصورت پیرائے میں عمل کی ضرورت پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں
    جتن کرو کجھ دوستو توڑو موت دا جال۔
    صابری کا قلم زنجیر میں کمزور جوڑوں کی نشاندہی جیسے عظیم کام میں ہمہ تن مصروف ہے۔ معاشرے کے تمام چبھتے ہوئے پہلو ایک ایک کر کے صابری کی تیز نظر میں آ کر اس کے تند و تیز رفتار قلم کی
    گرفت میں آتے جارہے ہیں۔ صابری کی یہ تحریریں اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

  8. تشخیص ذات
    ki rahnumai k liy Allah Pak ny ayk nizam bhi bna dia aur hadayat bhi nazil kr di ju wahan sy rahnumai ly ga wo kamyab hai
    aap ki yeh tahreer kamal hai aur 12th player wali baton main na jany kitny dilon ki awaz nazar aati hai
    mazeed yeh k main aap ku mubarak baad pesh krta hon k first time mere liy aap ki tehreer perhny sy ziada sunnay main asani hu gai aur alfaz ka waziah mafhoom nazar aya Ma sha Allah

  9. Ghour talbb baat ye ha ke 12wa khilarii buzdill ni ye ek bhadur or pur umeed ha jisy waqt ki zarorat k mutabiq kuch hasill hoga. I wish k ye 12wa khilarri apny muqamm or waqar qaimm rkhy. Or agyy brhyy.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *