ہمزاد سے مکالمہ (1) خود کلامی

Naeem Sabri

ایک رات اک عجب واقعہ ہوا۔ میں نیم خوابی میں کچھ بڑبڑا رہا تھا کہ اچانک کسی نے سرگوشی کی۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا، کوئی نہ تھا۔ میں نے وہم سمجھتے ہوئے اس خیال کو جھٹک دیا مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی سرگوشی ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اک ہیولا سا پرچھائی کی مانند میرے سامنے کھڑا ہے۔ وہ اپنی شکل و شباہت میں با لکل میری شبیہ معلوم ہوتا تھا۔

 

میں ششدر رہ گیا کہ میں یہاں ہوں یا وہاں۔ میں نے ہمت کر کے اس سے پوچھا کہ میں مم مم میرا مطلب ہے کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا ” میں! میں تم ہوں۔ ” میں نے بوکھلا کے کہا ” میں تو یہاں ہوں۔” وہ بولا  ” اور یہاں بھی تم ہی ہو۔ ” میں نے اِستِفسار کیا۔ بھلا میں دو جگہ کیسے ہو سکتا ہوں ؟ اس نے جواب دیا  ” جگہیں دو ہیں مگر ہم ایک ہی ہیں۔”  میں نے کہا  ” اچھا! ہم ، یعنی یک جان دو قالب ۔” اس نے جواب دیا  ” نہیں! بلکہ ایک ہیں اور دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ “

 

میں نے تنگ آ کر کہا، پہیلیاں نہ بجھواؤ! سچ سچ بتاؤ تم کون ہو؟ اس نے نحیف سی آواز میں کہا ” میں تمہارا ہمزاد ہوں۔”  میرا ہمزاد؟ ” تو پھر آج سے پہلے  تم کہاں تھے؟ ” اس نے افسردہ لہجے میں کہا سُنو دوست! ” میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ تھا لیکن تم نے کبھی میری طرف توجہ ہی نہیں کی۔

:یہ بھی پڑھیں 

ہمزاد سے مکالمہ(۲) محنت اور تقدیر

میں تمہارے بچپن کا ہمجولی، تمہاری ان کہی باتوں کا ہمراز، تمہاری بہاروں میں تمہارا ہم رنگ اور خزاؤں میں تمہارے ہم کنار رہا ہوں۔ میں تمہاری شرمندگی میں شریک اور پریشانیوں میں تمہارا ہمدم رہا ہوں۔ میں منصبوں میں تمہارا ہم منصب اور تمہارے قہقہوں کی چہک میں تمہارا ہم نوا رہا ہوں۔ میں تمہارے رتجگوں میں تمہارا ہم نشیں، تمہاری جہدِ مسلسل میں تمہارا ہمقدم ، تمہارے دُکھ میں تمہارا ہم سخن اور تمہاری تنہائیوں میں تجھ سے ہم کلام رہا ہوں۔

 

اس کشا کشِ حیات میں کَشت صرف تم نے ہی نہیں  اُٹھائے بلکہ یہ سختیاں میں نے بھی جھیلی ہیں۔ میں تمہاری افسردہ آنکھوں کی اداسی ہوں۔ تمہاری مسافتوں میں تمہارا ہم رِکاب اور آبلہ پائی کے اس سفر میں تمہارے زخموں سے رستا رہا ہوں۔ چلچلاتی دھوپ میں تمہارے لئے اُمید کا سائبان اور سردیوں کی خنک راتوں میں حدت بن کر تمہارے لہو میں رواں رہا ہوں۔

 

تمہاری خطاؤں اور لغزشوں پہ نادم میں بھی ہوا ہوں۔ جو گھاؤ تم نے کھائے ہیں وہ میں نے بھی اپنی روح پہ محسوس کئے ہیں۔ جس جس ترکش کے تیر تم پر چلے ہیں اُن کا درد میں نے بھی سہا ہے۔ میں تمہارے گیتوں کی کھنک اور یادوں کی کسک میں بھی موجود رہا ہوں۔ حتی کہ تمہارے آنسوؤں کی روانی میں بھی شامل رہا ہوں۔”

یہ باتیں سُن کر مجھے ہمزاد سے قدرے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی اور خوشی اس بات کی تھی کہ وہ نہ صرف میری ہر بات جانتا تھا بلکہ میری ہمسفری میں اُس نے بھی خوشی و غم کے لمحات کو ویسے ہی محسوس کیا تھا جیسا میں نے خود۔ مجھے وہ اپنا ہم نفس، ہم ذات اور ہمدمِ دیرینہ لگنے لگا۔

جاری ہے۔

 

24 thoughts on “

ہمزاد سے مکالمہ (1) خود کلامی

      1. Sabri sb really i m v impress and admire ur thinking like Allama Iqbal.May Allah grant u much success also in this field Ameen

  1. اس بار صابری کے قلم نے بربطِ خیال کے انتہائی لطیف تار کو چھیڑا ہے۔ صابری کی سوچ گنجان آباد ذہن کی لطافتوں، کثافتوں، محلات، کچی آبادیوں، سبزہ زاروں ،کچرے کے ڈھیروں، عبادت گاہوں اور ہیرا منڈیوں کے بیچوں بیچ راستہ بناتی دکھائی دیتی ہے۔ انتہائی لطیف نفسیاتی و نفسانی الجھنیں صابری کے قلم کی زد میں آتی دکھائی دے رہی ہیں۔
    صابری کا ہمزاد سات پردوں کے پیچھے چھپی ہماری وہ شخصیت ہے جس سے ہم کم ہی ہمکلام ہوتے ہیں۔ ہم کلامی کے اس شرف کے لیے اپنی تلاش کا ایک سفر درکار ہے۔ لیکن ہمیشہ کبھی ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار، اور کبھی، بیٹھئے میں بلا کے لاتا ہوں، والی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے۔ بہت کم ہو پاتا ہے کہ دونوں ایک ہی ویو لنتھ پر آ کر ایک سمت میں ایک ہی زاویہ نظر سے دیکھتے ہوئے ایک پیج پر آ جائیں۔
    صابری کا شرارتی اور مہم جو قلم خفیہ و خفتہ ذہنی دنیاؤں کی کھوج میں نکل پڑا ہے۔ نئ دنیاؤں کی دریافت کے اس سفر میں بہت کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمزاد کے ساتھ یہ مکالمہ کئی رنگوں میں کھل کر سامنے آنے والا ہے جو اپنی شخصیت کی تسخیر کی طرف اٹھنے والا ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔ یہ باطنی شخصیت کی مدد سے ظاہری شخصیت کی تعمیر و ترقی اور ترویج واشاعت کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔

    اشو کمار
    24.07.2020
    میانی

  2. صابری صاحب کے چھپا نہ صرف ہمزاد باہر آیا ہے بلکہ ایک کہنہ مشق لکھاڑی منصہء شہہود پر آنے کو تیار ہے۔

  3. MashaAllah Sir, great.. It creats an impression on my mind to find out my “Hamzaad” and have a dialogue with him.. A great activity in Psychological Perspective it can be… May Allah strengthen your pen to write much more like this. Ameen

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *