639-A سبزہ زار سکیم

سبزہ زار سکیم 639-A

سبزہ زار سکیم 639-A  لاہور،ہماری عملی زندگی کی ابتدائی کوششوں کا  مسکن۔ ہماری شب بیداریوں    

کا ساتھی۔ خود سے خود شناسی کا پیامبر ۔ جس کے یاد آتے ہی آج بھی گفتگو، اشعار اور گیتوں کی کھنک اور کسک محسوس ہوتی ہے۔

ساڑھے تین مرلہ اراضی پر محیط یہ مکان جس نے ہماری طرح تعمیروترقی کے ابتدائی مراحل ہی طے کئے تھے۔ اس نے بھی اپنے سرابھی اضافی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالا تھا اور تب تک سنگل سٹوری مکان ہی تھا۔ گویا اس کی حالتِ زار بھی ہم سے مختلف نہ تھی۔

اس مکان میں سیڑھیاں تو تھیں لیکن ہم اس تجربے سے عاری تھے کہ اتنی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد کس طرح کا احساسِ زندگی محسوس ہوتا ہے اور مناظر کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ سیڑھیوں کا دروازہ مستقل طور پر بند تھا۔ گویا ایک اشارہ تھا کہ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد بھی رستہ خود ہی بنانا پڑتا ہے محض سیڑھیاں چڑھنے سے کوئی منزل نہیں ملتی۔

مکان میں ایک کچن اور ایک باتھ روم تھا لیکن وہ دونوں بھی ہماری طرح بہت سے لوازمات سے بے نیاز تھے۔ چونکہ یہ کارنر پلاٹ تھا اس لئے اس کے دو دروازے تھے۔ بڑے گیٹ سے داخل ہوتے تو سامنے گیراج کی سہولت موجود تھی جس میں گاڑی تو کجا ابھی موٹرسائیکل بھی نہ تھا البتہ دو، تین سائیکلیں ضرور تھیں۔ سردیوں میں چھٹی والے دن اس گیراج سے دھوپ میں بیٹھ کر وٹامن ڈی پوری کرنے کا کام لیا جاتا۔

مکان میں ایک ہی بڑا ہال تھا جس میں سرخ اینٹوں کا فرش بچھا تھا، دیواریں پلستر تھیں لیکن بقیہ لوازمات فی الوقت موئخر کر دیئے گئے تھے۔ ہم نے ہال میں پرانے پردوں سے پارٹیشن کر لی تھی تا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو اُسے قدرے تنہائی میسرہو سکے۔

اس مکان میں اقوامِ متحدہ کی طرح پانچ ممبر مستقل تھے لیکن اقوامِ متحدہ کے برعکس کسی کو بھی ویٹو کا حق حاصل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ غیر مستقل ممبران بھی تھے جو چند ہفتوں یا مہینوں کے قیام کے بعد تبدیل ہوتے رہتے۔ مستقل ممبران میں ریاض ساغر، محمد نقیب، محمد وسیم صابری، محمد ندیم صابری اور محمد نعیم صابری شامل تھے جبکہ غیر مستقل ممران چونکہ آتے جاتے رہتے تھے اس لیئے اُن کی تعداد مستقل ممبران سے کہیں زیادہ تھی۔ چیدہ چیدہ ناموں میں سہراب، خان بابا، شہزاد، نقیب کا بھانجا اور محمد افضال شامل ہیں البتہ عام طور پر غیر مستقل ممبران ایک وقت میں تین سے زیادہ نہ ہوتے۔

آٹھ افراد پر مشتمل یہ ٹیم جس میں طلبا اور فارغ التحصیل سبھی شامل تھے ایک ایسی ٹیم تھی جس کے چہرے مستقبل کے خوابوں سے دمکتے تھے اور آنکھیں امید کی چمک سے روشن تھیں۔ اس ٹیم میں طلبا کےلیئے اتوار کے علاوہ چھ دن مختص تھے جن میں وہ کپڑے دھونے اور نہانے وغیرہ جیسے کام کرتے جبکہ اتوار کا دن نوکری پیشہ ممبران کےلیئے مخصوص تھا۔

ہنڈیا پکانے اور گھرکی صفائی ستھرائی کی ذمہ داری ہفتے ہیں ایک دن ایک ممبر کی ہوتی تھی۔ ہنڈیا بنانے کےلئے کسی بھی نئے ممبر کو سبزی بنانا سکھایا جاتا اور کامیابی پر سرٹیفیکیٹ دیا جاتا اور جو ممبر بغیر معاونت ہنڈیا بنانے کے قابل ہو جاتا اسے ڈپلومہ دیا جاتا اور ہفتے میں ایک دن اس کی ڈیوٹی لگ جاتی۔

ہر صبح جب آنکھ کھلتی تو ہر کوئی جلدی میں ہوتا۔ طلبا عِلم کی پیاس بجھانے کالج چلےجاتے جبکہ فارغ التحصیل ممبران صبح کے اوقات میں کسی پرائیویٹ سکول یا کالج میں پڑھاتے اور شام کے اوقات میں عِلم کے متوالوں کو گھر گھر جا کر مشکیزہِ علم سے سیراب کرتے۔ پڑھانے والوں کی یہ روٹین گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ، سردیوں کی خنک راتوں اور موسمِ برسات میں بھی تبدیل نہ ہوتی۔ ہاں البتہ کبھی کبھی در اور دروازے ضرور بدل جاتے۔

ساری مصروفیات کو مقدم و مؤخر کر کے ہفتہ کی رات فری رکھی جاتی تھی جس میں ادبی ذوق و شوق رکھنے والے غیر رہائشی ممبران بھی شرکت کرتے۔ ان غیر رہائشی ممبران میں بھی مستقل اور غیر مستقل دونوں طرح کے ممبران تھے جو ویک اینڈ پر اکٹھے ہوتے اور گپ شپ کا حصہ بنتے۔ ان غیر رہائشی مستقل ممبران میں ایک ریاض دانش تھا جو دودھ دہی کی دُکان چلاتا تھا لیکن اپنے ادبی ذوق کی وجہ سےٹیم کا حصہ بن گیا تھا۔ غیر مستقل ممبران میں دائیں بائیں سے کالج سٹوڈنٹس اوردُکانداربھی کبھی کبھی محفل نشیں ہوتے۔ ان میں خالد، بابر اور اقبال قابلِ ذکر ہیں۔

ہمارے دوست محمد عامر مسعود ایک ایسے ممبر تھے جو ملازمت تو اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن اکثر ان کا محکمانہ کام لاہور میں نکلتا رہتا تھا اور اگر کبھی سرکاری دورہ تاخیر کا شکار ہوتا تو محفل کا حصہ بننے کےلئے با الخصوص ویک اینڈ پر تشریف لاتے۔ اس لیئے اتنی دوری سے اتنی زیادہ حاضری پر میرا خیال ہے کہ انہیں بھی غیر رہائشی مستقل ممبر ہی شمار کرنا چاہیے۔

اکثر یہ محفل مکان پر ہی سجتی لیکن کبھی کبھی دوسرے شعراء کو سننے کےلیئے ہم ماڈل ٹاؤن، دھلہ سٹاپ کا رُخ کرتے جہاں احمد فرید صاحب سمیت کئی نئے اور پرانے شعراء کو سننے کا موقعہ ملتا۔

مکان پر ادبی نشست دیدنی تھی۔ کوئی نغمہ سناتا کوئی اپنی شاعری یا مضمون اور جو کچھ نہ سناتے وہ ناقدین کا فرض نبھاتے۔ بیچ کے وقفوں میں جب ہلکی پھلکی تنقید ہوتی تو بہانے بہانے سے نقاد حضرات کوئی واقعہ، قصہ، شگوفہ یا چٹخلہ بھی داغ دیتے جس سے سنانے والے کی کبھی حوصلہ افزائی ہوتی تو کبھی سرزنش۔ سخت تنقید پر سنانے والا اپنا سا منہ لے کے رہ جاتا۔ ایسی صورتِ حال میں دوسرے اُس کا حوصلہ بڑھاتے کہ یہ بات آپ کےلیئے نہیں کہی بلکہ اَز راہِ تفنن عرض کر دی ہے۔

الغرض یہ مکان، مکان نہیں ہے بلکہ ہمارے سادہ جذبوں کا امین ہے۔ اس کے درودیوار جانتے ہیں کہ کس طرح ہم کتابی علم کو اپنی معاشرت میں ڈھونڈھنے کےلیئے بے چین تھے۔ جو صبر، شکر اور محنت کے درس ہم نے کتابوں میں پڑھے تھے یا اساتذہ سے سُنے تھے اُن پر ہم قائم تھے اور اس کٹھن سفر میں کسی سہانے سفر کی امید پر رواں دواں تھے۔ ان دنوں کی یاد کے ساتھ دل مسحور ہو جاتا ہے اور تمام اچھی یادیں آج بھی حوصلے اور تقویت کا باعث بنتی ہیں۔

5 thoughts on “

639-A سبزہ زار سکیم

  1. طبیعت اور قلم دونوں مائل بہ جولانی ہیں شدید خطرہ پایا ہےکی طوفانی بننے میں زیادہ وقت نہ لگے گا۔

  2. اس چلچلاتی افراتفری اور بنجر مصروفیت کے دور میں صابری نے کمال مہارت سے ماضی کا دریچہ کھولا ہے۔ قوتِ اظہار لا جواب ہے۔ حسِ مشاہدہ گہرائی تک اترنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
    تحریر میں مزکور زیادہ تر کردار میرے دیکھے بھالے ہیں۔ صابری نے گویا البم کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ ایک ایک کو دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ یادِ ماضی بھی کیا خزانہ ہے، اور ماضی کے رنگوں میں رنگی ہوئی ایک اچھی تحریر کتنی بڑی دولت ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *