ہمزاد سے مکالمہ (۳) ماسک

ہمزاد سے مکالمہ (۳) ماسک

ہمزاد سے میری ملاقاتیں اب بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔ اور ان بڑھتی ملاقاتوں کی بدولت وہ بے تکلفی جو پچھلی ملاقاتوں میں پیدا ہوئی تھی، اب دوستی میں بدلتی جا رہی تھی۔ اس رفاقت کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمزاد اب صرف اپنی مرضی کے بجائے میری دعوت پر بھی آنے لگا تھا۔

میں نے اگلی ملاقات میں ہمزاد سے پوچھا کہ پاکستان کوزیادہ نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے یا غیروں نے۔ ہمزاد نے کہا ” غیروں سے تو ہر کوئی ہوشیار رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں سوشلزم، کیمونزم اور سیکولرازم کبھی کامیاب نہیں ہو پائے۔ مسئلہ تو اپنوں کا ہے جو ہمیشہ دو رنگی کا شکار رہے ہیں۔ اور ویسے بھی ہمارے ملک میں تو صرف لوگ ہیں۔ آدمی کہاں نظر آتے ہیں؟ اور اگر کچھ ہیں بھی تو ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہے۔ ہمارے ملک میں توکم و بیش ہر کسی نے ماسک پہن رکھا ہے۔”

 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

میں ذرا چونکا اور متجسس نطروں سے اِستِفسار کیا کہ ماسک!۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟ ہمزاد بولا ” میرا مطلب ہے کہ لوگوں نے اپنی اصلیت چھپانے کےلئے ماسک لگا رکھے ہیں۔ ورنہ لوگ پابندِ صوم و صلوۃ ہونے کے باوجود بجلی چوری، ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور حرص و ہوس پرستی کا شکار کیوں ہوں؟ ہمارے ہاں ہر شخص کی اپنی اخلاقیات ہے جس پر وہ بضد ہے۔ اور اس نے اپنی اخلاقیات کے حق میں کچھ اصول بھی وضع کر لیئے ہیں تا کہ خود کو مطمئن رکھ سکے۔ یہ ماسک بھی کئی قسم کے ہیں۔ جن کے پہننے والے اپنے بھائی بندوں کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مابین کبھی بحث و تکرار نہیں ہوتی۔

سرِ فہرست مذہبی ماسک ہے، پچھلے تہتر سالوں میں اس پر بہت کام ہوا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس کے کئی ڈیزائن متعارف کرائے گئے۔ اور ہر ڈیزائن اتنا مقبول ہوا کہ ہر آنے والے نئے ڈیزائن نے پچھلے ڈیزائن کی مقبولیت کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ عوام الناس نے  اس ماسک کی پذیرائی یوں کی کہ اس کے ساتھ مختلف رنگوں کے لباس میچنگ و کنٹراسٹ دونوں میں متعارف کروا دیئے۔

ماسک کی مناسبت سے کسی نے جبہ و دستار کو اپنا لیا۔ کسی نے ظاہری وضع قطع درست کرنے پہ اکتفا کیا۔ اور کسی نے لباس میں نسبت پر زور دیا۔ بس یوں سمجھیں کہ کوئی علمبردارِ وفا ہوا۔ کسی نے سادگی کا جامہ اوڑھ لیا اور کسی کو فقیری چولا راس آ گیا۔

اس ماسک میں تنوع کا یہ عالم ہے کہ کسی ایک دکان سے اس کی تمام ورائٹی دستیاب ہونا محال ہے۔ مزید یہ کہ کونسا ماڈل کب متعارف کرایا گیا یاد رکھنا بھی مشکل ہے۔ لہذا اہل علم ہی بجا طور پربتا سکتے ہیں کہ کونسے ماسک کا ماڈل کس سن کا ہے۔

اس سارے خرابے کی وجہ لا علمی اور شخصیت پرستی کے سوا کچھ سمجھ نہیں آتی۔ جس کی وجہ سے ظاہرداری میں تقلید نظر آتی ہے جبکہ عمل کی اصل حقیقت و حکمت سے یہ لوگ نا واقف اور اس کی تاثیرسے خالی ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسجدومکتب، خانقاہوں، مرشد خانوں اور راہبری کے علمبردارں نے جو راگ دن رات الاپ رکھا ہے۔ اُس کا نتیجہ دنیا داری اور نفسا نفسی کے علاوہ کچھ نظر ہی نہ آئے۔ اور لوگ جمیعت و اتفاق کے بجائے اختلافات کی نذرہوجائیں۔

دوسرا ماسک علمائے حق ماسک ہے جو علمائے سُو نے پہن رکھا ہے۔ اگرچہ یہ معدودے چند افراد ہی ہیں لیکن یہ علما کسی نہ کسی در کے نمائندے ہیں۔ ان کا کام لوگوں کو فروعی معاملات میں الجھا کے رکھنا اور اُن کے سادہ جذبات کو برانگیختہ کر کے خود ساختہ انتہا پسندی کی طرف مائل کرنا ہے۔ ان کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگوں کو نان ایشوزسے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔ تا کہ اُن کا کاروبارِ حیات چلتا رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے تھوڑے فائدے کی خاطر اپنے آپ کو تعصب و تفرقہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔

 

تیسرا ماسک رہبری ماسک ہے جو راہزنوں نے سجا رکھا ہے۔ وہ اس ماسک کے  بقیہ لوازمات کا بھی خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ بعض لوگوں میں اس ماسک کے ساتھ اچکن اور جناح کیپ مرغوب ہیں جو دوسروں کی نسبت اُن کا سیاسی قد نمایاں کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔  اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ عوامی مسائل کا ڈھنڈورا پیٹنا اُن کا شیوہ اور خود کو عوام دوست ثابت کرنا اُن کا منشور ہوتا ہے۔ چند شخصیات کے سوا، رہبری کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ رہبر مذہبی سیاسی جماعت کا ہو یا غیر مذہبی سیاسی جماعت کا، اثاثے سب کے بڑھتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کسی کے اثاثے دن دُگنی ترقی کرتے ہیں اورکسی کے رات چوگنی ترقی سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔

 

 

چوتھا اور پانچواں ماسک اپنی اصل میں ایک ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ جسے کسی دربار کی مجاوری یا نسبت حاصل نہیں ہوتی وہ فقیری ماسک پہن لیتا ہے جبکہ دوسرا پیری ماسک۔

 

چوتھے اور پانچویں ماسک کے حامل کام کرنے کو خلافِ شان اور خلافِ خلوت سمجھتے ہیں۔ چونکہ وہ کچھ نہیں کرتے اس لئے کمال کرتے ہیں۔ اور اسی کمال کے سبب دوسروں کی مصنوعی حاجت روائی اور دلجوئی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔” ہمزاد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ” دوست! ہماری زبوں حالی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عمل سے نسبت قائم کرنے کی بجائے صرف چیزوں، نوادرات، مقامات اور شخصیات سے نسبت پر اکتفا کر لیا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر سال ہزاروں زائرین بزرگوں کے مزاروں پر حاضری دیں، زیارات پر جائیں، حج و عمرہ کریں لیکن پھر بھی معاشرے کے اندر اخلاقی تنزلی کا طوفان تھمنے ہی میں نہ آئے؟”

 

38 thoughts on “

ہمزاد سے مکالمہ (۳) ماسک

  1. Zabardast…ap ne muashray main pai janay wali Ria kari ko bohat khobsorat alfaz main paish kia ha….ap ki tehreer ke rawaani or qalam ke kat bohat lutaf bhe deti ha or bohat kuch sochnay pr majboor bhe kr deti ha

    1. Another great depiction and Picture of the society and so called religious scholars, politicians, thinkers, Philosophers and leaders. You nailed it Sir.. It, once, stops us to ponder upon that what we are to be and what we are. Where we should go and what where we are going? It raises many questions like to know about the real us that what is the purpose of our being in the world and how we practically denied the implementation of true and pure values of Islam.. Thanks.

  2. Chha gy hn boss g be shak hr koi kisi na kisi mask k pechy chupa ha. Or apny jhot kisi na kisi trah ka pehnawa pehnaya ha.

  3. سر آپ نے بھی اصلاح اور رہبری کا پہن لیا ہے تاکہ دل کی بات کہنے میں آسانی ہو۔ ا تمام ماسک برداروں کی کامیابی کی وجہ کم علمی اور کج فہمیفہمی ہے۔ عمدہ کاوش ہے۔ اس تحریر میں املا کی اغلاط موجود ہیں ۔ایک آدھ اجنبی ترکیب بھی ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور

  4. Zabardast sir
    Hamzad bra samgdar ho gya h
    Laiken aik din is ko smajh a jae g k yar Tum bhe sache ho
    Tumari dunya aur Meri dunya different h ya phr phr dekhne samjhne aur mahsoos krne k zavye mukhtlif h

  5. Right 100%
    ہر شخص نے اوڑھ رکھا ہے لبادہ نیا ہر شخص نے چہرے پہ چہرہ سجا رکھا ہے کیونکر ہو پہچان ممکن ہر راستہ الجھا رکھا ہے

  6. The most difficult thing in this world Is to explore our own self. This is what you are doing now and doing quite superbly.
    Stay blessed sir.

  7. سر موضوع بہت سادہ اور دل کو چھو جانے والا ہے. آپ کی کوشش قابل ستائش ہے. آپ کی تحریر مختصر ہوتی ہے مگر اس علم و ہنر کے موتیوں کا سمندر ہوتا ہے.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *