ہمدم دیرینہ کی یاد میں – دوسرا حصہ

 ایک مرتبہ میں رات کو گھر واپس جا رہا تھا۔ جس راستے سے میں گزر رہا تھا وہاں کی لائٹ اچانک چلی گئی۔ میں اس رات بھی کبھی ہیڈلائٹ درست کرنے اور کبھی مڈگارڈ (فرنٹ فینڈر) کو سیدھا کرنے میں مگن تھا اس پر مستزاد یہ کہ اس رات پلگ کیپ خراب ہونے کے باعث میں نے تار مروڑ کر پلگ پن کے اوپر لگا رکھی تھی۔ بائیک ذرا تیز چلانے پر اس میں سے چنگاریاں نکلنا شروع ہو جاتیں۔ علاقے میں بجلی بریک ڈائون کے باعث  ایک غیر معمولی منظر دیکھنے میں آیا۔ مجھے یوں لگا جیسے میری بہترین پرفارمنس پر پلگ سے جگنو تالیاں بجاتے نکلتے اور تھوڑی دیر میں غائب ہو جاتے اور میں جب دوبارہ ریس بڑھاتا تو پھر سے جگنوؤں کی قطار تالیاں بجاتے نکلتی اور  غائب ہو جاتی۔ یہ منظر اپنے تئیں ایک دلکش منظر تھا۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

 ایک مرتبہ میری بائیک کی کک ٹوٹ گئی۔ میں نے کچھ دن خود ہی دھکا لگا کر بائیک اسٹارٹ کرنے کا شغل جاری رکھا۔ صبح کے وقت بائیک سٹارٹ کرنے میں زیادہ کشت کرنا پڑتا لیکن جب کبھی اشارے پر کھڑے بے دھیانی میں ریس چھوڑنے کی وجہ سے بائیک بند ہو جاتی تو اس وقت بائیک ایک ہی دھکے سے سٹارٹ ہو جاتی۔ لیکن لوگوں کے لئے یہ منظر ایسا ہی تھا جیسے کوئی موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والا سڑک پر آگیا ہو۔

 

وقت گزرنے کے ساتھ پہلے کیریئر نے زنگ پکڑا پھر رفتہ رفتہ اس کا لوہا نرم پڑتا گیا اور بالآخر ایک دن وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ رہا اور ٹوٹ گیا۔ کیریئر ٹوٹنے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ اضافی سامان کے لیے بنائی گئی چیز ہے میرے پاس کیوں کہ کوئی اضافی سامان نہ تھا اس لئے میں نے کیرئیر کو اضافی سمجھتے ہوئے  بائیک سے اتروا دیا۔

 

 

 بائیک کا چین بھی آبلہ پائی کے اس سفر میں خستہ حال ہو گیا۔ جب چین بار بار اترنے لگا تو میں نے چین کا نچلا حصہ اتروا دیا تاکہ چین اترنے کی صورت میں بار بار مکینک کے پاس نہ جانا پڑے۔ اس سے یہ سہولت کم از کم ہو گئی کہ چین کے اترنے پر، میں خود ہی چین چڑھا لیا کرتا۔ البتہ اس وقت مجھے دائیں بائیں سے کوئی کاغذ یا خشک پتا تلاش کرنا پڑتا جس سے ہاتھ کالے ہونے سے بچ جائیں۔

 

 چین کے سوراخ کشاکش حیات کی کھینچا تانی سے کھل گئے اور گراریوں کے کنارے بھی بری طرح گھس گئے۔ اس کا پہلا علاج ماہرین سے مشورے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ چین کی ایک کڑی نکلوا دی جائے جس سے چین تن جائے گا اور گراریوں سے اترنے کے مرض میں کماحقہ کمی آئے گی۔ لہذا ایسا ہی کیا گیا اور افاقہ بھی خاصا ہوا لیکن جب پچھلی گراری کے کنارے بالکل برابر ہو گئے تو چین پھر سے ڈھیلا ہو گیا۔ بائیک کی چال اور آواز میں بھی اچھا خاصا بدلاؤ آگیا۔

 

 ایسی صورت حال میں جب بائیک چلاتا تو شروع میں چین کی، گراریوں کے اوپر چلنے کی آواز آتی، گرڑڑ گرڑڑ اور لٹکتی چین کی چھن چھن کے ساتھ بائیک دھوئیں اور گھوں ں ں کی تیز آواز کے ساتھ ہلکی سی رفتار پکڑتی اور پھر دھیرے دھیرے رفتار تیز ہو جاتی۔ بائیک یہ مظاہرہ ہر اشارے پہ رکنے کے بعد اور جہاں کہیں بائیک کی رفتار بوجوہ کم ہوجاتی نشرمکرر کے طور پر دکھاتی۔ اس مرض کا علاج کم ازکم پچھلی گراری کا تبدیل کروانا تشخیص ہوا لہذا ایسا ہی کیا گیا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اگلی گراری کی باری آئی اور تیسری مرتبہ صرف چین تبدیل کروا دیا گیا۔

 

 جب بائیک زیادہ پنکچر ہونے لگی تو پچھلا ٹائر اگلے پہیے، جبکہ اچھی حالت والا سیکنڈہینڈ ٹائر پچھلے پہیے میں ڈلوادیا گیا۔ دونوں ٹائروں میں جب کوئی ٹائر مزید کمزور ہوتا تو نئی ٹیوب ڈلواتے وقت پرانی ٹیوب بھی ٹائر میں ڈلوا دیتا تاکہ ٹائر کی مضبوطی بنی رہے۔

 

 اگلے اور پچھلے ٹائروں میں نئی کے ساتھ پرانی ٹیوب فٹ کروانے کے باوجود، بعض اوقات جہاں سے ٹائر کمزور ہوتا وہاں سے اس کا کچھ حصہ باہر ابھر آتا۔ بائیک آہستہ چلانے پر اگلے شاکس سے ٹھک ٹھک کی آواز آتی اور ہلکا سا جھٹکا لگتا، جس سے ہلمٹ میں لگی سڑیپ کے ساتھ لوہے کی بکل کی چھنا چھن  بھی سنائی دیتی۔ جبکہ دونوں آوازیں مل کر  آہستہ آہستہ ٹھک ٹھک چھن   ٹھک ٹھک چھن کا ردھم پیدا کر تیں۔ لیکن جب رفتار تیز ہوتی یا کسی پل سے اترائی کے وقت اس ردھم میں تیزی آجاتی اور آواز کچھ ٹھک ٹھک چھن ،ٹھک ٹھک چھن،ٹھک ٹھک چھن  کی طرح کی ہو جاتی۔

 

 بائیک کا ہینڈل پیپروں کا بوجھ اٹھا اٹھا کے جھکتا چلا گیا جیسے پیری کے بوجھ سے کمرخم کھا جاتی ہے۔ اور پھر ایک دن ہینڈل کی جھکتی کمر ٹوٹ گئی اور وہ بھی داغ مفارقت دے کر رخصت ہو گیا۔ ٹریفک پولیس والے اول تو اس بائیک کو روکتے ہی نہ تھے اور اگر کبھی روکا تو بنا سوال جواب کیئے چالان کاٹ کے پکڑا دیتے۔

 

 رفتہ رفتہ کبھی ریس کی تار ٹوٹ گئی تو کبھی کلچ کی تار، کبھی بریک شو گھسنے سے بریک کمزور تو کبھی بریک لیور ہاتھ میں، کبھی کک ٹوٹ گئی تو کبھی اس کی سیل، کبھی پنکچرڈ بائیک جھومر ڈالے جا رہی ہوتی تو کبھی چین کور ہاتھ میں ہوتا، کبھی وہیل کی تاریں ٹوٹ جاتیں تو کبھی ہب خراب ہو جاتی۔اور کبھی سلنسر کی بانسری سانس لینے سلنسر سے باہر  آن ٹپکتی ۔ ان ساری خوبیوں کو دیکھتے ہوئے دوست احباب ازراہ تفنن کہتے کہ کسی دن یہ بائیک آثار قدیمہ والوں نے ضبط کر لینی ہے۔

 

ایک مرتبہ میرے بائیک مکینک نے مجھ سے کہا کہ یہ بائیک اب متفرق امراض کا شکار ہو چکی ہے اس سے پہلے کہ کسی دن یہ احتجاجاً بکھر جائے۔ آپ یہ بائیک مجھے دے دیں کیونکہ اسے اب مستقلً ایک مکینک کی ضرورت ہے جو کم ازکم آپ پوری نہیں کر سکتے میں نے کچھ دن سوچنے کے بعد بھاری دل کے ساتھ بائیک مکینک کے حوالے کر دی۔

 

 

 

2 thoughts on “

ہمدم دیرینہ کی یاد میں – دوسرا حصہ

  1. بہت خوب سر
    لیکن ہمدم دیرینہ کو چھوڑنے کی یاد میں جو دکھ ہوا اس کا اظہار نہیں ہوا
    آخر اتنا لمبا ساتھ تھا
    تیرے ساتھ یوں میں قید تھا
    تجھے چھوڑ کر میں آزاد ہوا

  2. مصنف نے بائک کتھا ایسے موڑ پر چھوڑی جو قاری کو جھنجھلاہٹ آمیز اضطراب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یک کوئی بات ہے کہ دکھ سکھ
    کے ساتھی کو کسی دوسرے کے حوالے کر دیا نہ خوشی کا نہ غم۔ کا۔ کچن کابینہ کا کردار پس پردہ چلا گیا۔بہر حال دیکھیے آگے آگے ہاتا ہے کیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *